The ottoman empire – ottoman series – khilafat e osmania – how ottoman empire became powerful

خلافت عثمانیہ مکمل داستان – عثمانی کیسے پاور فل ہو گئے؟

The ottoman empire - ottoman series - khilafat e osmania - how ottoman empire became powerful
The ottoman empire – ottoman series – khilafat e osmania – how ottoman empire became powerful

The ottoman empire – ottoman series – khilafat e osmania – how ottoman empire became powerful

الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، سعودی عرب، یمن، کویت، عراق، اردن، اسرائیل
فلسطین، لبنان، شام، ترکی، یونان، بلغاریہ، البانیہ، رومانیہ، مقدونیہ، سربیا، کوسوو اور ہنگری
کبھی ایک سلطنت علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کہتے تھے۔ دا آٹومن ایمپائر۔
تین براعظموں اور چھے صدیوں پر پھیلی یہ سلطنت کیسے وجود میں آئی، کیسے دنیا کی سپر پاور بنی
اور پھر کیسے یوں تتر بتر ہوئی کہ آج اس کی داستان تلاش کرنا بھی ایک کام ہے۔



یہ آج کا ترکی ہے لیکن ہزار سال پہلے اس علاقے کو اناطولیہ کہتے تھے۔
اس کے مشرق میں یہاں سلجوقی سلطنت کی حکومت تھی۔ یہ سلجوق ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
جبکہ یہ سارا علاقہ رومیوں کے قبضے میں تھا۔
رومن ایمپائر اناطولیہ اور یورپ کے مشرقی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی جس کا مرکز یہ قلعہ تھا۔ جسے قسطنطنیہ یا کانسٹائن ٹینوپول کہتے تھے۔
لیکن آج اسے زمانہ استنبول کے نام سے جانتا ہے۔
اس رومی سلطنت کو بازینٹائین ایمپائر یا ایسٹرن رومن ایمپائر کہتے تھے۔
اسی خطے اناطولیہ میں یہاں ایک بہت ہی خوبصورت جھیل ہے۔ اس لیک وان کہتے ہیں۔
کہتےہیں اس جھیل میں ایک مگر مچھ اور مچھلی کی ملی جلی شکل والا مونسٹر رہتا ہے۔
معلوم نہیں رہتا ہے یا نہیں، لیکن جھیل کا نظارہ کیا ہی

خوبصورت ہے۔


اس کے کنارے پر یہ خوبصورت تاریخی چرچ دیکھئے جس کی دیواروں پر بائبل کی ایک مقدس داستان ترشی ہوئی ہے۔
اسی جھیل کے اس کنارے پر ایک ہزار سال پہلے بظاہر مختصر لیکن تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی جنگ ہوئی تھی۔
اُسی تاریخی جنگ کی یاد میں یہاں ہر سال اگست میں ایک شاندار تقریب ہوتی ہے۔
یہ تقریب اتنی اہم ہوتی ہے کہ ترک صدر بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔

تقریب میں ایک کھیل پیش کیا جاتا ہے جس میں ترک گھڑ سوار، لگامیں پکڑے بغیر گھوڑا دوڑاتے ہیں اور بھاگتے گھوڑے سے، گردن موڑ کر پیچھے کی جانب تیر چلاتے اور نشانہ لگاتے ہیں۔
یہ آج ایک کھیل ہے لیکن نو سو اڑتالیس سال پہلے ان کے آباؤ اجداد نے یہی سب کر کے رومیوں سے یہ سارا علاقہ چھین لیا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ 11ویں صدی عیسوی میں اناطولیہ پر کنٹرول کیلئے سلجوقیوں اور رومیوں میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔
لیکن بنیادی طور پر یہ علاقہ رومی سطنت بازنطائن ایمپائر کا حصہ تھا۔
رومن سلطنت نے ترکوں کو روکنے کیلئے اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ قلعوں کی ایک طویل قطار بنا رکھی تھی، جو سرحدی چوکیوں کا کام دیتی تھی۔
اور ان قلعوں میں موجود فوجی دستے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے تھے۔
لیکن یہ حملے اتنے بڑھ گئے تھے کہ انہیں روکنا اب سرحدی

قلعوں کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔
چنانچہ رومی شہنشاہ رومانوس نے ترک خطرے کو مستقل ختم کرنے کیلئے ایک بڑی فوج جمع کی۔
جس کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ ذیادہ تھی۔
جب رومانوس سلجوقیوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا تھا
اس وقت سلجوقی ترکوں کا سب سے بڑا سلطان الپ ارسلان مصر کی فاطمی خلافت سے جنگ میں الجھا ہوا تھا۔
فاطمی خلافت کے کنٹرول میں بیت المقدس، شام کے ساحلی علاقے تھے اور الپ ارسلان یہ علاقے چھیننا چاہتا تھا۔
لیکن ظاہر ہے الپ ارسلان ایک وقت میں دو، دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا تھا۔
اس نے رومن شہنشاہ کو پیغام بھیجا کہ اگر رومانوس جنگ

نہ کرے تو ترک اس کے علاقوں پر حملے بند کر دیں گے۔
اور بدلے میں رومن سرحدی فوج بھی ترک علاقوں میں چھاپہ مار کاروائیاں نہیں کرے گی۔
رومانوس مان تو جاتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دونوں سلطنتوں کی درمیانی سرحد غیر واضح تھی۔
اور سرحدی علاقوں پر دونوں کا بہت زیادہ کنٹرول بھی کچھ ذیادہ نہیں تھا۔
چنانچہ یہ معاہدہ طے نہیں ہو سکا۔ اور رومی شہنشاہ نے آگے کی طرف سلجوقی سلطنت کے بارڈر کی طرف پیشقدمی جاری رکھی۔
ایک ہزار اکہتر میں رومانوس اپنے بڑے لشکر کے ساتھ اناطولیہ میں ملازکرد کے مقام پر پہنچ چکا تھا۔
یہاں سے سلجوقی سلطنت اب زیادہ دور نہیں تھی۔
چنانچہ الپ ارسلان کے پاس بھی ایک محاذ چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس نے فاطمیوں سے جنگ روک دی اور رومی لشکر سے مقابلے کی تیاری کے لیے اپنے مرکز ایران آ گیا۔
یہاں اس نے تیس ہزار کا لشکر تیار کیا۔ جس میں ماہر قسم کے گھڑ سوار اور تیر انداز شامل تھے۔
الپ ارسلان ایک لمبے راستے سے جھیل وان کے کنارے پہنچا۔ اور اس نے رومی فوج کے ایک بڑے حصے کو پیچھے سے جا لیا۔

یہ ایک سرپرائز اٹیک تھا۔ جس سے رومی فوج سنبھل نہ سکی۔
رومیوں پر دوسری قیامت یہ گزری کہ ان کی فوج میں جو ترک سپاہی کرائے کے سپاہی بن کر لڑ رہے تھے وہ عین وقت پر الپ ارسلان کی فوج سے جا ملے۔
جس سے رومیوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
اس فرار کی وجہ سے رومی فوج کے اُس حصے کے حوصلے بھی پست ہو گئے جس کی قیادت بازنطینی شہنشاہ رومانوس کر رہا تھا۔
جب اس حصے سے الپ ارسلان کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ رومن شہنشاہ مارا گیا ہے۔
اس افواہ نے عیسائیوں کے بڑے لشکر کی کمر توڑ دی۔
فوج کچھ دیر تک غیر منظم ہو کر لڑنے کے بعد پسپا ہونے لگی۔
رومی جو بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ آئے تھے صرف چوبیس گھنٹوں میں جنگ ہار چکے تھے۔
لیکن جو ہونے والا تھا یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔

جنگ کے خاتمے پر ایک عام سلجوقی سپاہی سلطان الپ ارسلان کے سامنے آیا۔
اس نے زخموں اور دھول مٹی میں اٹا ہوا رومی سپاہی الپ ارسلان کے سامنے لا کر ڈھیر کر دیا۔
سلطان نے پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ رومی شہنشہاہ رومانوس ہے۔
الپ ارسلان کو یقین نہیں آیا کہ رومی شہنشاہ اس کے قدموں میں پڑا ہے۔
اس نے رومانوس کی گردن پر پاؤں رکھا اور پوچھا
’’بتاؤ اگر میں اسی طرح تمہارے سامنے لایا جاتا تو تم کیا کرتے؟‘‘
رومانوس نے کہا ’’میں تمہیں قتل کردیتا یا زنجیروں میں باندھ کر قسطنطنیہ کے بازاروں میں گھماتا‘‘۔
الپ ارسلان نے جواب دیا ’’اور تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ میرا انتقام کتنا بھیانک ہو گا۔ میں تمہیں معاف کر دوں گا‘‘۔
اس کے بعد الپ ارسلان نے رومانوس سے بہت اچھا سلوک کیا،

اسے اعلیٰ لباس دیا، کھانا دیا اور ایک معاہدہ کیا۔
جس کے تحت اناطولیہ کے بہت سے علاقے سلجوقیوں کے کنٹرول میں آ گئے۔
رومی شہنشاہ نے پندرہ لاکھ سونے کے سکے، سالانہ خراج اور اپنی بیٹی کی شادی سلطان کے بیٹے سے کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
اس کے بعد رومی شہنشاہ کو آزاد کیا گیا لیکن ۔۔۔
لیکن ہوا وہی جو الپ ارسلان نے کہا تھا کہ میں تمہیں اس سے بھی بھیانک سزا دوں گا۔
رومی شہنشاہ رومانوس ابھی اپنے مرکز یعنی قسطنطنیہ پہنچا بھی نہیں تھا کہ اسے اپنے ہی باغیوں نے آن لیا۔
کیونکہ قسطنطنیہ میں اس کے خلاف بغاوت ہو چکی تھی اور نیا شہنشاہ اقتدار سبنھال چکا تھا۔
تو باغیوں نے رومانوس کو گرفتار کر لیا اور اس کی آنکھیں نکال دیں اور اسے قید میں ڈال دیا جہاں وہ بہت تکلیف دہ موت مرا۔

وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی اناطولیہ کا یہ علاقہ دوبارہ رومیوں کے قبضے میں یا عیسائیوں کے قبضے میں نہیں گیا۔
رومیوں نے اس علاقے کو واپس لینے کی بہت کوششیں کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
ہاں یہ جگہ تاریخ میں امر ضرور ہو گئی۔
کیونکہ یہیں کہیں وہ ترک خانہ بدوش قبیلہ بھی تھا، جو جانوروں کو لمبے لمبے گھاس کے میدانوں میں ہانک کر اپنی گزر بسر کرتا تھا۔
-آج اس قبیلے کو دنیا عثمانی ترکوں کے نام سے جانتی ہے۔
ان کا اصل نام کیا تھا، یہ اناطولیہ میں ٹھیک ٹھیک کہاں رہتے تھے، شروع میں ان کا مذہب کیا تھا یہ سب باتیں کسی کو معلوم نہیں۔
کیونکہ عثمانی ترکوں کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا وہ سلطنت عثمانیہ کے قیام کے کم از کم سو سال بعد لکھا گیا۔
جس میں بہت کچھ رنگ آمیزی اور داستان طرازی بھی ہو سکتی ہے اور یہ سب کچھ سچ بھی ہو سکتا ہے۔
تو سلجوق ترکوں کے اناطولیہ کے بڑے حصے پر قبضے کے بعد

ترکوں کے دوسرے کئی قبیلوں کی طرح یہ عثمانی ترک بھی اس سرسبز اور خوبصورت علاقے میں گھومنے پھرنے لگے۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بہادر، جفاکش اور جنگجو طبیعت کے لوگ تھے۔
اس وقت تک اناطولیہ میں آباد دیگر قبائل جو سلجوقی سلطنت کے وفادار تھے ان کا بنیادی کام یہ تھا کہ وہ سلجوقی سلطنت کا رومیوں سے دفاع کریں۔
ایک طرح سے یہ سلجوقی سلطنت کا بفر زون تھا اسٹریٹیجک ڈیبتھ تھی۔
لیکن سلجوقیوں کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا رومیوں کی طرف سے نہیں بلکہ مشرق میں چنگیز خان کی طرف سے کرنا پڑا۔
چنگیز خان اچھے کپڑوں کا بہت شوقین تھا۔ اور یہ کپڑے اسلامی دنیا میں بنتے تھے۔
اس نے مسلمانوں کے سلطان خوارزم شاہ کے پاس جو ایران اور سینٹرل ایشیا کا حکمران تھا کچھ تاجروں کو بھیجا۔
مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ ان علاقوں میں بننے والا بہترین کپڑا چنگیز خان کے لیے جمع کر کے لائیں۔
لیکن خوارزم شاہ نے چنگیز خان کے بھیجے تاجروں کو

جاسوس سمجھ کر قتل کروا دیا۔
چنگیز خان غصے میں آگ بگولا ہو گیا۔
اس نے معاملے کی تحقیق کے لیے ایک قاصد کو خوارزم شاہ کے پاس بھیجا خوازم شاہ نے اسے بھی قتل کروا دیا۔
بس اب کیا تھا۔ چنگیز خان آندھی اور طوفان بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔
اس نے چین کی سرحد سے بغداد تک مسلم ریاستوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
یہاں تک کہ وہ اناطولیہ تک آ گیا۔
چنگیز خان کے جانشینوں نے سلجوقیوں کی سلطنت بھی تہس نہس کر دی۔
اور باقی بچی ایک چھوٹی سی سلاجقی سلطنت جسے سلاجقہ روم کہتے تھے۔
یہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ایک گروپ سا تھا جس پر الپ ارسلان کے رشتے داروں کی اولادیں حکومت کر رہی تھیں۔
تو اسی سلاجقہ روم اور رومی سلطنت کے درمیان اب عثمانی ترکوں کا قبیلہ اپنے لیڈر عثمان کی قیادت میں آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہا تھا۔
یہ عثمان کہاں پیدا ہوا اور اس کی شروع کی زندگی کیسے

گزری اس بارے میں آج زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
حتیٰ کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عثمان کا نام کیا واقعی عثمان تھا؟
یا اتھمان یا اتمان تھا۔ کیونکہ عربی لہجے کا نام عثمان اسے بہت بعد میں دیا گیا تھا۔
اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ایک دلیر انسان ہے۔
اس کے جنگجو بھی زبردست گھڑ سوار تھے۔
اتنے زبردست کہ وہ بغیر لگامیں تھامے، دوڑتے گھوڑوں سے، شکار کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
عثمان اپنے سپاہیوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا تھا۔
اس کے اسی رویے نے اسے اپنی فوج میں ہردلعزیز بنا رکھا تھا۔
عثمان نے کچھ ہی عرصے میں گھڑسوار ترکوں کی ایک بڑی

فوج تیار کر لی تھی۔
اس نے اپنے اردگرد موجود دوسرے ترک سرداروں کو بھی ساتھ ملا لیا تھا۔
اب وہ اتنا طاقتور ہو چکا تھا کہ منگولوں کی چھوٹی موٹی ٹولیاں اس سے مقابلے کے بجائے کنی کترا کر نکل جاتی تھیں۔
عثمان رومیوں کی بازنطینی سلطنت پر حملہ کرنا چاہتا تھا، تا کہ اپنی ریاست کو وسعت اور تحفظ دے سکے
لیکن اس کے راستے میں دریائے سنگارین یا ریور سکاریا ایک قدرتی رکاوٹ تھا۔
اس دریا کے پار رومی سلطنت بازنطین تھی جنھوں نے دریا کے ساتھ ساتھ مضبوط چوکیاں بنا رکھی تھیں۔
چوکیوں پر موجود تیرانداز عثمان کی بڑھتی فوجوں کو آگے نہیں آنے دیتے تھے۔
لیکن پھر سن تیرہ سو یا تیرہ سو دو میں ایک قدرتی آفت آئی۔
دریا سنگارین نے رخ بدل لیا اور بازنطین کی مضبوط چوکیاں

دریا کی کاٹ میں آ کر گرنے لگیں۔
عثمان کو اسی موقعے کا انتظار تھا، اس نے دریا پار کیا اور رومی علاقوں پر حملے شروع کر دئیے۔
بازنطینیوں نے جب عثمان کے حملے کی خبر سنی تو اس کے مقابلے کیلئے ایک فوج بھیجی۔
اور یہاں عثمان نے وہ جنگی مہارت دکھائی جو اس نے منگولوں سے سیکھی تھی اور جو بعد میں عثمانیوں کا ٹریڈ مارک بن گئی تھی۔
عثمان نے پہلے اپنا ایک چھوٹا سا فوجی دستہ دشمن کے مقابلے پر بھیجا۔
جب جنگ شروع ہوئی تو اس دستے نے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔
دشمن اس دستے کا پیچھا کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا جہاں عثمان اور اس کا اصل لشکر گھات لگائے بیٹھے تھے۔
عثمان نے دشمن کو قریب آتے دیکھ کر پوری قوت سے حملہ کر دیا۔
رومی فوج کو بری طرح اس جنگ میں شسکت ہوئی۔


اس فتح کے بعد عثمان نے رومیوں کے کئی قلعے اور شہر فتح کر لئے جن میں ’’ینی سحر‘‘ سب سے اہم تھا۔
اس شہر کو عثمان نے اپنا دارالحکومت بنا لیا۔
شاندار فتوحات نے عثمان کو اس علاقے میں رہنےو الے سارے ترکوں کا ہیرو بنا دیا۔
اب اناطولیہ کے ترک ایک ایک کر کے اس کے جھنڈے کے نیچھے جمع ہونے لگے تھے۔
عثمان کا لشکر بڑا ہو رہا تھا لیکن پھر بھی رومیوں کی بازنطینی سلنطنت سے بہت چھوٹا تھا۔
لیکن وہ چھوٹے لشکر کے ساتھ بھی بازنطینی سلطنت پر حملے جاری رکھے ہوئے تھا۔


جس کی وجہ سے اس کے دشمنوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔
اس کے ایک چچا نے ایک بار اسے اس مہم جوئی سے منع کرنا چاہا تو عثمان بہت ناراض ہوا۔
کہ اس کے فیصلوں کو چیلنج نہ کیا جائے۔
عثمان اتنا ناراض ہوا کہ اس نے اپنے چچا کو تیر کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔
چچا کو تو اس نے ہلاک کر دیا لیکن پھر بھی وہ اہم معاملات میں ایک شیخ ادھ بالیی سے ضرور مشورہ لیا کرتا تھا۔
وہ شیخ ادھ بالیی کو اپنا مرشد مانتا تھا۔
انہی شیخ کی ایک بیٹی سے عثمان شادی بھی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شیخ ادھ بالی اس پر راضی نہیں تھے۔
ایک روایت کے مطابق ایک دن عثمان نے ایک خواب دیکھا جس میں اس نے دیکھا کہ ایک چاند شیخ ادھ بالیی کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں آ جاتا ہے۔


پھر عثمان کے جسم سے ایک بڑا درخت نکلتا ہے جس کی شاخیں مشرق و مغرب میں پھیل جاتی ہیں۔
پھر اس درخت کی جڑوں سے 4 بڑے دریا نکلتے ہیں اور4 بڑے پہاڑ درخت کی پھیلتی شاخوں کو سہارا دیتے ہیں۔
پھر اچانک تیز ہوا چلتی ہے اور اس درخت کے پتے اڑتے ہوئے ایک عظیم شہر کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
خواب کے مطابق یہ شہر ایسی جگہ تھا جہاں دو سمندر اور دو براعظم ملتے ہیں۔
یہ شہر ایک انگوٹھی کی طرح تھا اور عثمان یہ انگوٹھی پہننا چاہتا ہے۔


لیکن اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی۔
عثمان نے یہ خواب شیخ ادھ بالیی کو سنایا تو انھوں نے کہا
’’مبارک ہو خدا نے تمہیں ایک بہت بڑی سلطنت کی بشارت دی ہے اور تم میری بیٹی سے شادی کرو گے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ اس خواب کی تعیبر ہوئی۔
جس کا آغاز یوں ہوا کہ عثمان کی شیخ ادھ بالیی کی بیٹی رابعہ سے شادی سے ہو گئی۔
بزرگ کی بتائی تعبیر اور کمزور ہوتی رومی سلطنت کے باعث عثمان کے حوصلے بہت بڑھنے لگے تھے۔
اس نے تیرہ سو سترہ میں بازنطینی سلطنت کے اہم ترین قلعے قسطنطنیہ جسے آج استنبول کہتے ہیں کے قریب ہی ایک اہم ترین شہر بروصہ کا محاصرہ کر لیا۔
یہ جنگ دس سال جاری رہی لیکن آخر کار فتح عثمانی ترکوں کے حصے میں آئی۔


تیرہ سو چھبیس میں بروصہ کے گورنر نے عثمانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
لیکن جب شہر فتح ہوا تو عثمان موت کے قریب پہنچ چکا تھا۔
عثمان کے بیٹے اورحان نے فتح کی خوشخبری بیمار اور بوڑھے عثمان تک پہنچائی تو وہ خوش ہو گیا۔
اس نے بیٹے کی تعریفیں کیں اور اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا۔
ساتھ وصیت بھی کی کہ موت کے بعد اسے بروصہ شہر میں ہی دفن کیا جائے


اور بروصہ کو عثمانی ترکوں کا نیا دارالحکومت بنا دیا جائے۔
چند دن بعد عثمان کی وفات ہوئی تو اسے بروصہ ہی میں دفن کیا گیا۔ جہاں اس کا مزار آج بھی موجود ہے۔
اورحان نے وصیت کے مطابق بروصہ ہی کو نیا دارالحکومت بھی بنا دیا۔
اور یوں اب عثمانی ترکوں کے پاس ایک ایسی ریاست آ چکی تھی جسے وہ سلطنت کا نام دے سکتے تھے۔
اور یہ نام دیا گیا۔ اورحان نے پہلی بار سلطان کا لقب اختیار کیا۔
اس سے پہلے ان کے ہاں سردار کے لیے ’بے‘ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔


جیسے عثمان بے، اورحان بے وغیرہ۔
اور اب یہ اورحان بے نہیں سطلنت عثمانیہ کا پہلا سلطان، سلطان اورحان تھا۔
اور اس سلطنت کی بنیاد رکھی جا چکی تھی جو عثمان نے اپنے خواب میں دیکھی تھی۔
لیکن اب یہ نئی نویلی سلطنت خطرات کا شکار ہو رہی تھی۔
اور یہ خطرہ صرف رومیوں سے نہیں بلکہ ترکوں کی ایک اور سلطنت سے بھی تھا۔


ترکوں کی ایک سلطنت جو کیراسی سلطنت کہلاتی تھی وہ عثمانی ترکوں کے مغرب میں طاقتور ہو رہی تھی۔
یہ ممکن تھا کہ رومنز اور کیراسی ترک کبھی بھی مل کر عثمانی ترکوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیں۔
اس مسئلے کی وجہ سے سلطان اورحان سخت پریشان تھا۔
لیکن پھر قدرت نے اسے وہ موقع دیا جو کسی سلطان کو صدیوں میں ایک بار ملا کرتا ہے۔


یہ موقع کیا تھا؟
اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ سلطنت عثمانیہ جو کبھی رومیوں کے قریب ایک چھوٹی سی ریاست تھی
وہ ایک ہی سلطان کے عہد میں یوں پھیلی کی رومیوں کے مغرب میں بھی عثمانی تھے اور مشرق میں بھی عثمانی تھے۔

About Muhammad Adnan

Hello! I Am Arslan & I Am The Content Writer And Founder Of TeachnNets. We Are Always Working To Make TeachNets.com More Fun And Useful For You. We Hope You Enjoy This.

View all posts by Muhammad Adnan →